سورۃ نساء
میں چھٹا پارہ اس اعلان سے شروع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ غلط بات کو پسند نہیں کرتا لیکن اگر کوئی مظلوم شخص اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ ارشاد ہے کہ کفار اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق کرتے ہیں یعنی اللہ کی بات کو مانتے ہیں لیکن رسول کی بات کو نہیں مانتے، یا اللہ کے بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں یعنی حضرت موسی و عیسیٰ علیہما السلام کو تو مانتے ہیں لیکن حضرت محمد کا انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ حق سے انکاری ہیں۔ مومنوں کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو بیک وقت مانتے ہیں یعنی اللہ کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں۔
ارشاد ہے کہ یہود حضرت مریم صدیقہ کی کردار کشی کیا کرتے تھے حالانکہ وہ پاک دامن عورت تھیں۔ ارشاد ہے کہ یہود اپنی دانست میں عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر چکے تھے جب کہ اللہ فرماتا ہے کہ عیسیٰ کو نہ قتل کیا گیا اور نہ سولی دی گئی بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اسی طرح یہود کو اللہ نے سود کھانے سے روکا تھا لیکن وہ اس غلط کام میں مسلسل ملوث رہے، اللہ نے ان کافروں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ لیکن اہلِ کتاب کے پختہ علم والے لوگ جو قرآن اور سابقہ الہامی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور نمازوں کو قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان لے آتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجرِ عظیم تیار کر دیا ہے۔
سورۃ نساء کے آخر میں اللہ نے قرآنِ مجید کو اپنی دلیل اور واضح روشنی قرار دیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ جو قرآنِ مجید کو مضبوطی کے ساتھ تھامے گا، رب اس کو اپنے فضل اور رحمت میں داخل فرمائے گا اور اس کو صراطِ مستقیم پر چلائے گا۔ آخرِ سورت میں کلالہ کے ترکے کے بارے میں احکام ذکر کیے گئے ہیں۔
سورۃ نساء کے بعد
سورۃ مائدہ
ہے جس کے شروع میں اللہ نے اہلِ ایمان کو اپنے وعدے پورے کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انھیں کامیابی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد دس چیزوں کی حرمت بیان کی گئی ہے: مرا ہوا جانور، بہتا ہوا خون، سور کا گوشت، جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، جو جانور گُھٹ کر مر جائے، جو جانور چوٹ لگ کر مر جائے، جو جانور گر کر مر جائے، جو جانور سینگ لگ کر مر جائے، وہ جانور جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر وہ جسے تم مرنے سے پہلے ذبح کرلو، اور پانسوں سے قسمت کا حال معلوم کرنا۔
ارشاد ہے کہ آج کافر تمھارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں، ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرو۔ آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمھارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مومن عورتوں کے ساتھ ساتھ اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت دی ہے، ان کے مہر ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کی عفت قائم رکھنے اور ان سے کھلی بدکاری اور چھپی دوستی نہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ بین المذاہب شادیاں معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی اور مودت پیدا کرنے کے طریقوں میں سے موثر ترین طریقہ ہے جسے قرآنِ مجید نے جاری کیا۔
اس کے بعد پاکی کا بیان ہے۔ وضو کا طریقہ ذکر کیا گیا ہے کہ چہرے اور بازوؤں کو کہنیوں تک دھویا جائے اور سر اور پاؤں کا مسح کیا جائے۔ نیز بیماری اور سفر کی حالت میں مٹی سے تیمم کا ارشاد ہوا۔
اللہ تعالیٰ عیسائیوں کے اس قول کو رد فرماتے ہیں کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہتے ہیں۔ ارشاد ہے کہ اگر خدا عیسیٰ علیہ السلام، ان کی والدہ مریم صدیقہ اور زمین پر جو کوئی بھی موجود ہے ان کو فنا کے گھاٹ اتار دے تو اسے کون پوچھ سکتا ہے؟
پھر حضرت موسیٰ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ رب نےتم پر جو انعامات کیے ہیں ان کو یاد کرو۔ تم میں انبیا مبعوث کیے گئے اور تم کو بادشاہت عطا کی گئی اور تم کو وہ کچھ عطا کیا گیا جو کائنات میں کسی دوسرے کو نہیں ملا۔ اللہ کے احسانات کا احساس دلانے کے بعد حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ۔ فرمایا کہ اگر تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ گے تو یقینًا تم غالب آؤ گے۔ اگر تم مومن ہو تو صرف اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اس حوصلہ افزا بات کو سن کر بھی لوگ بزدل بنے رہے اور کہنے لگے: اے موسیٰ جب تک وہ لوگ وہاں رہیں گے ہم لوگ کبھی وہاں نہیں جائیں گے۔ تم اور تمھارا رب جائے اور جنگ کرے، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ موسیٰ اس سارے منظر کو دیکھ کر رنجیدہ ہوئے اور اللہ سے یوں گویا ہوئے کہ اے میرے رب مجھے اپنے اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر اختیار نہیں۔ پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان فیصلہ کر دے۔ القصہ اپنے نبی کی اس نافرمانی کی وجہ سے بنی اسرائیل منزل سے بھٹک گئے اور چالیس برس تک دربدر پھرا کیے۔
اس سورت میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کے اختلاف کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے ایک بیٹے کی قربانی کو قبول کر لیا جب کہ دوسرے کی قربانی قبول نہ ہوئی۔ جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی اس نے اپنے بھائی کو حسد کا شکار ہو کر بلاوجہ قتل کر دیا۔ حضرت آدم کے بیٹوں کے واقعہ کو بیان فرما کر اللہ نے انسان کے قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ ارشاد ہے کہ جو ایک انسان کا ناحق قتل کرتا ہے وہ ایک انسان کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا قتل کرتا ہے اور جو ایک انسان کی زندگی کا سبب بنتا ہے وہ ایک انسان کو زندہ نہیں کرتا بلکہ پوری انسانیت کو زندہ کرتا ہے۔
اس سورت میں زمین میں فساد پھیلانے والوں کے لیے سخت سزا ذکر کی گئی ہے۔ ارشاد ہے زمین میں فساد پھیلانے والوں کو پھانسی دے دینی چاہیے یا ان کو قتل کر دینا چاہیے یا ان کے ہاتھ پاؤں کو کاٹ دینا چاہیے یا ان کو جلاوطن کر دینا چاہیے۔ یہ دنیا میں ان کے کیے کی سزا ہے، اور آخرت کا عذاب تو انتہائی درد ناک ہے۔
نیز ارشاد ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اس سے قریب ہونے کے لیے وسیلہ پکڑا کرو، اور فلاح حاصل کرنے کے لیے اس کے راستے میں جہاد کیا کرو۔ اس کے بعد چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت، اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔
اللہ نے یہود و نصاریٰ سے دوستی کی مذمت کی ہے اور فرمایا ہے کہ جو ان سے دِلی دوستی رکھتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ اس کے بعد اللہ نے یہودیوں کے ذاتِ باری کے بارے میں منفی اقوال پیش کیے ہیں۔ یہودی کہتے تھے کہ اللہ کا ہاتھ تنگ ہے۔ ارشاد ہوا کہ ان کے اپنے ہاتھ تنگ ہیں اور ان پر لعنت ہو اپنے قول کی وجہ سے۔ اللہ نے کہا کہ اس کے ہاتھ کھلے ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔
نیز رسولِ کریم علیہ السلام سے بطورِ خاص ارشاد ہے کہ آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے وہ سب کا سب لوگوں تک پہنچا دیجیے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ اللہ کا پیغام پہنچانے سے قاصر رہے۔
چھٹے پارے کے آخر میں اللہ نے اس بات کو ذکر کیا ہے کہ جنابِ داؤد اور عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے کافروں پر اس لیے لعنت کی کہ وہ برائی کے کاموں سے روکنے کے بجائے خود ان میں ملوث ہو چکے تھے اور ان کا یہ فعل انتہائی برا تھا۔ چنانچہ ہم مسلمانوں کو برائی کے کام سے روکنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین