سورۃ المائد
ہیں ساتویں پارے کے شروع میں نرم دل اور ایمان شناس عیسائیوں کی جماعت کا ذکر ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے کلام کی تلاوت کی جاتی ہے تو حقیقت کو پہچاننے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں اور وہ لوگ حق کو پہچاننے کے بعد اس کو قبول کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے، ہمارا نام بھی اسلام کی گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔ یہ آیت اس وقت نجاشی شاہِ حبشہ کی شان میں اتری جب قرآن کی تلاوت سن کر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے اور اس نے اپنا شمار اسلام کی گواہی دینے والوں میں کروا لیا۔
اہلِ ایمان سے مخاطب ہو کر ارشاد ہوتا ہے کہ انھیں پاک چیزوں کو خود پر حرام نہیں کرنا چاہیے اور اللہ کے دیے پاک رزق کو کھانا چاہیے اور اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ نیز ارشاد ہےکہ اللہ انسان کی بلاارادہ کھائی قسموں پر مواخذہ نہیں کرتا لیکن جب کسی قسم کو پوری پختگی سے کھایا جائے تو ایسی صورت میں انسان کو اس قسم کو پورا کرنا چاہیے۔
اس کے بعد شراب اور دیگر کچھ چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے کہ اے ایمان والو، بے شک شراب، جوا، بت گری اور پانسہ ناپاک اور شیطانی کام ہیں۔ پس تم ان سے بچو تاکہ کامیاب ہو جاؤ۔ بے شک شیطان جوئے اور شراب کے ذریعے تمھارے درمیان دشمنی اور عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور تمھیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکنا چاہتا ہے، تو کیا تم لوگ باز آ جاؤ گے؟
اس کے بعد سمندری شکار کو حلال قرار دینے کا ذکر ہے اور حالتِ احرام میں خشکی کے شکار سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ اللہ نے عزت کے گھر یعنی کعبہ کو لوگوں کے لیے موجبِ امن قرار دیا ہے۔ نیز یہ بھی ذکر ہے کہ پیغمبر کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے، اور جو کچھ تم سامنے اور پوشیدہ کرتے ہو وہ اللہ کو معلوم ہے۔ ارشاد ہے کہ اچھا اور برا برابر نہیں ہو سکتے خواہ برے کی کثرت تمھیں حیرانی میں ڈال دے۔
اس پارے میں اللہ نے بکثرت سوال کرنے سے بھی روکا ہے۔ کئی مرتبہ کثرتِ سوال کی وجہ سے جائز اشیا بھی حرام ہو جاتی ہیں۔ وصیت کرنے اور گواہی کو چھپانے والے کے بارے میں احکام بھی یہیں نازل ہوئے ہیں۔ نیز اسی موقع پر نبیوں کو دیے گئے علمِ غیب کا تذکرہ ہے۔ ارشاد ہے کہ وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے جب اللہ پیغمبروں کو جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمھیں کیا جواب ملا تھا تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں، تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔
اس کے بعد حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی باتوں کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے کہ حواریوں نے عیسیٰ سے کہا کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے دسترخوان اتار سکتا ہے۔ حواریوں کے اس بلاجواز مطالبے پر انھیں تنبیہہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ اللہ سے ڈر جاؤ اگر تم مومن ہو۔ حضرت عیسیٰ کی اس نصیحت کے جواب میں حواریوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور اپنے دلوں کو مطمئن کریں اور ہم جان لیں کہ ہمیں سچ بتایا گیا ہے اور اس پر گواہ رہیں۔ اس اصرار پر حضرت عیسیٰ نے دعا مانگی کہ اے ہمارے پروردگار، ہمارے اوپر آسمان سے دسترخوان نازل فرما جو ہمارے اول اور آخر کے لیے عید اور تیری جانب سے ایک نشانی بن جائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہت ہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ اس دعا پر رب نے فر مایا کہ میں دستر خوان تمھارے لیے اتاروں گا، پھر جو کوئی تم سے اس کے بعد کفر کرے گا تو میں اس کو ایسا عذاب دوں گا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا ہوگا۔
سورۃ المائدہ
کے آخر میں اس بات کا ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ سے پوچھیں گے کہ کیا انھوں نے لوگوں کو کہا تھا کہ ان کی اور ان کی والدہ مریم صدیقہ کی پوجا کی جائے۔ آپ کہیں گے کہ یا اللہ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جسے کہنے کا مجھے حق نہیں۔ میں تو ان کو ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ میرے اور اپنے اللہ کی پوجا کرو۔ پھر حضرت عیسیٰ کا جملہ منقول ہے کہ اے اللہ اگر تو ان لوگوں کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کی مغفرت فرما دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔
سورۃ المائدہ کے بعد
سورۃ الانعام
ہے جس کے شروع میں ارشاد ہے کہ ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو زمین اور آسمان کا خالق ہے اور جس نے اندھیروں اور اجالوں کو پیدا کیا لیکن کافر پھر بھی اس کا شریک بناتے ہیں۔ انسان کی تخلیق کا ذکر ہے اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس کو رہنے کا ایک وقت دیا، پھر ایک مخصوص مدت کے بعد اس کو زندہ کیا جائے گا لیکن انسان ہے کہ دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں شک کا شکار ہے۔ ارشاد ہے کہ اللہ ہی ہے جو انسان کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے جو وہ کماتا ہے۔ ارشاد ہے کہ دن اور رات میں جو کچھ بھی موجود ہے اسی کا ہے اور وہ سننے جاننے والا ہے۔
اس سورت میں ارشاد ہے کہ اگر اللہ انسان کو کوئی گزند پہنچانا چاہے تو اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا اور اگر وہ اس کو خیریت سے رکھے تو بھی وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آگے ذکر ہے کہ کافروں کے طعن و تشنیع رسولِ اکرم کو دکھ پہنچاتے تھے۔ اللہ نے اپنے نبی کو ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ درحقیقت آپ کو نہیں بلکہ مجھ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ ارشاد ہے کہ اللہ کے پاس غیب کے خزانوں کی چابیاں ہیں اور ان کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خشکی اور سمندر میں جو کچھ بھی موجود ہے اللہ اس کو جانتا ہے اور کوئی پتہ جو زمین پر گرتا ہے اللہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی ذرہ جو زمین کے کسی اندھیرے مقام پر پڑا ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے۔
اس سورت میں اللہ نے حضرت ابراہیم کے اپنی قوم کی بت پرستی کی بھرپور طریقے سے مذمت کا ذکر کیا ہے۔ بت پرستی کی مذمت کے ساتھ ساتھ آپ نے اجرامِ فلکی کی حقیقت کو بھی پا لیا۔ جگمگ کرتے ستارے، چاند اور سورج کو ڈوبتا دیکھ کر آپ نے اعلان کر دیا میں قوم کے شرک سے بری ہوں اور اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں شامل نہیں ہوں۔
اس پارے کے آخر میں ارشاد ہے کہ لوگوں نے اللہ کی قدر جیسی جاننی چاہیے تھی نہ جانی ۔ ارشاد ہوا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو یہ کہے مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو، اور جو یہ کہے جیسی کتاب اللہ نے نازل کی ہے ویسی میں بھی بنا لیتا ہوں۔
ارشاد ہے کہ اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور اس کی اولاد کیسے ہو جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں ہے۔ وہ اللہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک کر ہی نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کر سکتا ہے۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو مشرک غیراللہ کے پجاری ہیں ان کو گالی نہ دیں۔ یہ لوگ جواب میں اللہ کو گالی دیں گے۔ یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ ان سے کہہ دیجیے کہ نشانیاں تو سب اللہ کے پاس ہیں۔ یہ ایسے بدبخت ہیں کہ ان کے پاس اگر نشانیاں آ بھی جائیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین