دوسرے پارے کے آغاز میں سورہ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے قبلے کی تبدیلی کا ذکر فرمایا ہے۔ مسلمانوں پر جب اللہ نے نماز کو فرض کیا تو ابتدائی طور پر مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ حضرت محمد علیہ السلام کی یہ دلی تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ قبلے کو تبدیل کرکے بیت الحرام کو قبلہ بنا دے۔ چنانچہ بیت الحرام کو قبلہ بنا دیا گیا۔ اس پر بعض کم عقل لوگوں نے تنقید کی کہ جس طرح قبلہ تبدیل ہوا ہے، مذہب بھی تبدیل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قبلے کی تبدیلی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون حضرت محمد کا سچا پیروکار ہے اور کون ہے جو اپنے قدموں پر پھر جانے والا ہے۔ وگرنہ جہتیں تو ساری اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہیں۔ مشرق و مغرب اللہ کے لیے ہیں اور وہ جس کو چاہتا ہے صراطِ مستقیم پر چلا دیتا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اہلِ کتاب کے پختہ علم والے لوگ پیغمبر علیہ السلام کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کا ایک گروہ جانتے بوجھتے ہوئے حق کو چھپاتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ اس کے بندوں کو اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ ارشاد ہوا: "تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا۔”
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ رب کی تائید و نصرت صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ارشاد ہے کہ شہید مرتا نہیں بلکہ زندہ ہوتا ہے مگر تم اس کی حیات کا شعور نہیں رکھتے۔ اگر کوئی مصیبت آئے تو کہو کہ بے شک ہم اللہ کی طرف ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، پس جو کوئی بھی حج اور عمرہ کرے اس کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی ضرور کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر ہے جو رب کے احکامات اور اس کی آیات کو چھپاتے ہیں۔ ارشاد ہے کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو، یعنی ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے محروم رہیں گے۔
اس کے بعد ارشاد ہے کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم عبادت کے لیے مشرق کی طرف رخ کرتے ہو یا مغرب کی طرف بلکہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات، یومِ حساب، تمام انبیا اور ملائکہ پر پختہ ایمان ہو اور وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنے والا ہو، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا کرنے والا ہو، وعدوں کو پورا کرنے والا ہو اور تنگی اور کشادگی دونوں حالتوں میں صبر کرنے والا ہو۔ جس میں یہ تمام اوصاف ہوں گے وہی حقیقی متقی ہے۔
اس کے بعد قانونِ قصاص و دیت کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے کہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا تاہم اگر کوئی اپنے بھائی کو دیت دے کر معاف کر دیتا ہے تو یہ رب کی طرف سے رخصت ہے لیکن زندگی بہرحال قصاص لینے میں ہی ہے۔
اس کے بعد رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا ذکر ہے اور ارشاد ہے کہ قرآنِ کریم کو رمضان کے مہینے میں اتارا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مسافروں اور مریضوں کو رخصت دی ہے کہ اگر وہ رمضان کے روزے نہ رکھ سکیں تو بعد میں کسی وقت قضا روزے پورے کر سکتے ہیں، اور جن میں قضا کی استعداد نہ ہو وہ فدیے میں مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ روزوں کے بارے میں بطورِ قاعدہ یہ بات بتائی گئی ہے کہ رب تمھارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ نیز رمضان کی راتوں میں بیویوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا کیونکہ لوگ اس سلسلے میں خیانت کیا کرتے تھے، اور ارشاد ہوا کہ عورتیں تمھاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو یعنی مرد و عورت ایک دوسرے کی زینت بھی ہیں اور ضرورت بھی۔ نیز ارشاد ہوا کہ سحری کا وقت تب تک ہے جب تک تم کالے اور سفید دھاگے میں تمیز کر سکو۔
اس کے بعد چاند کے گھٹنے بڑھنے کی غرض و غایت بتائی گئی ہے کہ اس کے ذریعے اوقات اور حج کے ایام کا تعین ہوتا ہے۔ پھر قتال کی فرضیت کے آداب و احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد حج کے آداب کا ذکر ہے کہ حج میں بے حیائی اور لڑائی جھگڑے والی کوئی بات نہ ہو۔ ارشاد ہوا کہ حاجی کو زادِ راہ کی ضرورت ہے اور سب سے بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔
اس کے بعد دعا مانگنے کا طریقہ بتایا گیا۔ ارشاد ہوا کہ بعض لوگ دعا مانگتے ہیں کہ رب ہمیں دنیا میں بہترین دے جب کہ بعض لوگ جو ان کے مقابلے میں بہتر دعا مانگتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی بہترین دے اور آخرت میں بھی بہترین دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
اس کے بعد سابقہ امتوں کے ان لوگوں کا ذکر ہوا ہے جن کو ایمان لانے کے بعد تکالیف، مصائب اور زلزلوں کو برداشت کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو سابقہ امتوں کی تکالیف سے اس لیے آگاہ فرمایا کہ ان کے دلوں میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ جنت میں جانا آسان نہیں بلکہ اس کے لیے تکالیف اور آزمائشوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد دین سے پھر جانے کے وبال کا ذکر ہے کہ جو شخص اپنے دین سے منحرف ہو جائے گا اور کفر کی حالت میں مرے گا تو اس کے اعمال ضائع کر دیے جائیں گے۔
اس کے بعد شراب اور جوئے کے بارے میں ذکر ہے کہ گو ان میں بعض چیزیں فائدے کی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں اس لیے لوگوں کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ناپاکی کے ایام میں عورتوں سے اجتناب کا حکم دیا گی اور طلاق کے مسائل کو بالتفصیل بیان فرمایا گیا کہ طلاق کا اختیار مرد کے پاس دو دفعہ ہوتا ہے۔ اگر وہ مختلف اوقات میں دو دفعہ طلاق بھی دے دے تو وہ اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے لیکن اگر وہ تیسری طلاق بھی دے دے تو پھر رجوع کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کے بعد رضاعت کی مدت کا ذکر ہے کہ عورت اپنے بچے کو دو برس تک دودھ پلا سکتی ہے۔ پھر بیوہ کی عدت کا ذکر ہے کہ بیوہ کو چاہیے کہ چار مہینے اور دس دن تک عدت پوری کرے اور اس کے بعد اگر کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو کرلے۔
اس کے بعد اللہ نے نمازوں کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ خصوصًا درمیانی نماز (بعض کے نزدیک عصر اور بعض کے نزدیک فجر) کی حفاظت کیا کرو۔ اس کے بعد ہاروت ماروت اور طالوت جالوت کا قصہ بیان ہوا ہے۔ پارے کے آخر میں ارشاد ہے کہ اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔ مطلب یہ کہ حکمرانوں کا آنا جانا بھی رب کی نعمت ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین